ہوا کے دوش پر اب تک دہائی دیتی ہیں
پرانی دستکیں اب تک سنائی دیتی ہیں
قفس کو توڑنے کی جستجو میں گزری ہے
وہ بیتی ساعتیں پر کب رہائی دیتی ہیں
نکل تو سکتا ہوں اس کی گلی سے میں لیکن
وہاں سے آگے نہ راہیں سجھائی دیتی ہیں
تو کیسے مانوں دلیلیں میں عقل کی سوچو
کسی کی یادیں جو پل پل صفائی دیتی ہیں
اس انتظار کو جب جب سمیٹا ہے ہم نے
بدن سے سسکیاں ، آہیں سنائی دیتی ہیں
کسی کہانی کا کردار سوچ کر بنئے
حسیں کہانیاں اک دن جدائی دیتی ہیں
کٹھن بہت ہیں مگر بے چراغ راتیں ہی
مرے وجود کو مجھ تک رسائی دیتی ہیں
ہے بات بات پہ ظلمت کا ذکر کیوں ابرک
تمہاری آنکھیں تو روشن دکھائی دیتی ہیں
۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک
©Lal Writes
#findyourself