روز اِس دل کے کئی تار بدل جاتے ہیں
وقت پڑنے پہ میرے یار بدل جاتے ہیں
جب بھی ہم لوٹ کے آتے ہیں گھروں کو اپنے،
یہ گلی اور یہ بازار بدل جاتے ہیں
اب بھی طاقت کے توازن کو بگڑتا پا کر،
دن نکلتا ہے تو اخبار بدل جاتے ہیں
اک کہانی ہیں ازل سے جو چلی آتی ہے،
بس کہانی کے یہ کردار بدل جاتے ہیں
چیخ کر کہتے ہیں تاریخ کے کالے پنّے،
تخت کو دیکھ کے سالار بدل جاتے ہیں
ایک مجبور کی بازار میں قیمت کیا ہے،
رات کے ساتھ خریدار بدل جاتے ہیں
زَر کا اعجاز جو دیکھا تو یہ معلوم ہوا،
کیسے اس قوم کے سردار بدل جاتے ہیں
زیــن اِس طور بدلتے ہیں زمانے والے،
جیسے کوفے میں طرفدار بدل جاتے ہیں۔۔
©Adab Wale ادب والے
#clouds