*غزل *
کوئلے کی آگ سے صندل بنایا جا رہا ہے
چار لوگوں میں مجھے پاگل بنایا جا رہا ہے
چپ کا پھیکا پن نظارے کو پسند آیا نہیں تھا
شاخ - لب پر گفتگو کا پھل بنایا جا رہا ہے
کڑوے پن سے ایسی کیا تخلیق - ریشم کر رہے ہو
جھاڑیوں سے کون سا ململ بنایا جا رہا ہے
ہنستے گاتے شخص کے ہونٹوں پہ کانٹے اگ رہے ہیں
خوب صورت باغ کو جنگل بنایا جا رہا ہے
یعنی اب کار - امامت شہر کے بچے کریں گے
آخری صف کو صف - اول بنایا جا رہا ہے
خون اب کم کم گزرتا ہے رگوں کی پٹڑیوں سے
ریل کی رفتار کو بوجھل بنایا جا رہا ہے
دل کو اب شاید مقام - دل نہیں رہنا کہ اس میں
راہگیروں کے لئے ہوٹل بنایا جا رہا ہے
#share