سزا ایسی ملی مجھ کو ، زخم ایسے لگے دل پہ
چھپاتی تو جگر جاتا ، دِکھاتی تو بکھر جاتی
سامنے منزل تھی ، اور پیچھے اُس کی آواز
رُکتی تو سفر جاتا ، جو چلتی تو بچھڑ جاتی
منزل کی بھی حسرت تھی ، اور اُس سے محبت بھی
اے دل تُو ھی بتا ، میں اُس وقت کِدھر جاتی؟؟
مُدت کا سفر بھی تھا ، اور برسوں کی شناسائی
رُکتی تو بکھر جاتی ، جو چلتی تو مر جاتی
سزا ایسی ملی مجھ کو ، زخم ایسے لگے دل پہ
چھپاتی تو جگر جاتا ، دِکھاتی تو بکھر جاتی