ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں ستاروں کی براتیں اکثر
اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دیتا
ہاتھ رکھ دیتی ہیں دل پر تری باتیں اکثر
حسن شائستۂ تہذیب الم ہے شاید
غم زدہ لگتی ہیں کیوں چاندنی راتیں اکثر
حال کہنا ہے کسی سے تو مخاطب ہے کوئی
کتنی دلچسپ ہوا کرتی ہیں باتیں اکثر
عشق رہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں پھر بھی
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں براتیں اکثر
ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر
ان سے پوچھو کبھی چہرے بھی پڑھے ہیں تم نے
جو کتابوں کی کیا کرتے ہیں باتیں اکثر
ہم نے ان تند ہواؤں میں جلائے ہیں چراغ
جن ہواؤں نے الٹ دی ہیں بساطیں اکثر