غزل
بات اندر ہی رہے دل ہی کے اندر نکلے
ورنہ ممکن ہے کہ پھر بات بھی فر فر نکلے
بال مایوس،نظر خم ہے صدا بے آواز
تیری بستی سے اسی حال میں اکثر نکلے
وہ جو کہدیں تو یہ کنکر بھی بنیں لعل و گہر
وہ اگر کہدیں تو یہ پھول بھی پتھر نکلے
ہم نے اس طرح تیرے شہر سے ہجرت پائی
وہ کہ جیسے شب ہجرت کو پیمبر نکلے
عین ممکن ہے کہ یہ تیر چلے اور غازل
ایک مشکیزہ چھدے اور سمندر نکلے
غازل غدیر
#Beauty