غزل
بات اندر ہی رہے دل ہی کے اندر نکلے
ورنہ ممکن ہے کہ پھر بات بھی فر فر نکلے
بال مایوس،نظر خم ہے صدا بے آواز
تیری بستی سے اسی حال میں اکثر نکلے
وہ جو کہدیں تو یہ کنکر بھی بنیں لعل و گہر
وہ اگر کہدیں تو یہ پھول بھی پتھر نکلے
ہم نے اس طرح تیرے شہر سے ہجرت پائی
وہ کہ جیسے شب ہجرت کو پیمبر نکلے
عین ممکن ہے کہ یہ تیر چلے اور غازل
ایک مشکیزہ چھدے اور سمندر نکلے
غازل غدیر
گل کے آنگن میں کوئی سنگین پتھر دیکھ کر
لوگ ہیں حیراں مجھے تیرے برابر دیکھ کر
کون ہے بستر پہ احمد ہیں یا پھر حضرت علی
سوچ میں ہیں سب شب ہجرت کا منظر دیکھ کر
غم بھی ہیں آلام بھی ہیں دکھ بھی ہیں صدمے بھی ہیں
ہوگیا ہوں میں پریشاں دل کے اندر دیکھ کر
تم تو کہتے تھے کہ میری آنکھوں میں سیلاب ہے
اشک کم لگنے لگے ہیں کںیوں سمندر دیکھ کر
وہ میری پہلی محبت تیرا ہی کچھ عکس تھی
یاد آتی ہے مجھے وہ تجھ کو اکثر دیکھ کر
غازل غدیر
جاتے جاتے یہ کام کر جاؤ
تم مرےذہن سےاتر جاؤ
کیوں یہ تم نےبجھادئیے ہیں چراغ
ایسا نہ ہو کہ خود سے ڈر جاؤ
کوئی غازل سے بول دےجاکر
ہوگئی رات اب تو گھر جاؤ
غا زل غ د ی ر
جاتے جاتے یہ کام کر جاؤ
تم مرےذہن سےاتر جاؤ
کیوں یہ تم نےبجھادئیے ہیں چراغ
ایسا نہ ہو کہ خود سے ڈر جاؤ
کوئی غازل سے بول دےجاکر
ہوگئی رات اب تو گھر جاؤ
غا زل غ د ی ر
Continue with Social Accounts
Facebook Googleor already have account Login Here