مٹا رہی تھی مجھے طرزِ اِنتہا اُس کی
کبھی نہ کُھل سکی مُجھ پر کوئی ادا اُس کی
نہ میں نے کوئی صدا اُس کو دی ، نہ وہ لوٹا
میری اناء کے مُقابِل رہی انا اُس کی
اُسے خِراجِ محبت ادا کرُوں گا ضرور
ذرا میں یاد تو کر لُوں کـوئی وفا اُس کی
وہ چند لوگ جو میری طرف تھے ، کیا کرتے ؟
اُدھر تو ایک خُدائی تھی ہمنوا اُس کی
نجانے کِتنی محبت تھی اُس کی نفرت میں
کئی دُعاؤں سے بہتر تھی بد دُعا اُس کی
اُسے جُدا ہوۓ برسوں گُزر گۓ دانش
مگر ہے نقش دِل و جاں پہ ہر ادا اُس کی-
©DaNi Writes