در در کی ٹھوکروں سے معلم کو بچالو
قلم چھین کر لکھاری کی زندگی بچالو
جس صحافی کو درکار ہو رائے کی آزادی
صحافت کو چھوڑو صحافی کو بچالو
ذرا سا قلم سچ کہنے لگا تو
قلم سے خون کی ندیاں بہیں گی
قلم کے خون کے پیاسے بہت ہیں
قلم کا خون ہونے سے بچالو
قلم کا خون جس جس نے کیا ہے
سزائیں ان کو دے پایا نہ کوئی
سزائیں قلم کو ملی ہے ہر بار
سزا سے قلم کو اس بار بچالو
سچ کو جھوٹ سے برتر کہا تھا
مگر سچا کہاں ملا کسی کو افضل
جھوٹ نے سچ کو پھانسی دی ہمیشہ
سچ لکھنے سے روکو سچائی بچالو
و باب جسکانی
©Vahab Jiskani
poetry