گل کے آنگن میں کوئی سنگین پتھر دیکھ کر
لوگ ہیں حیراں مجھے تیرے برابر دیکھ کر
کون ہے بستر پہ احمد ہیں یا پھر حضرت علی
سوچ میں ہیں سب شب ہجرت کا منظر دیکھ کر
غم بھی ہیں آلام بھی ہیں دکھ بھی ہیں صدمے بھی ہیں
ہوگیا ہوں میں پریشاں دل کے اندر دیکھ کر
تم تو کہتے تھے کہ میری آنکھوں میں سیلاب ہے
اشک کم لگنے لگے ہیں کںیوں سمندر دیکھ کر
وہ میری پہلی محبت تیرا ہی کچھ عکس تھی
یاد آتی ہے مجھے وہ تجھ کو اکثر دیکھ کر
غازل غدیر
#Night