کون دیکھے گمان سے باہر
خواب سب ہیں بیان سے باہر
اک نشاں تک ہے سوچ دنیا کی
اور ہم ہیں نشان سے باہر
راز کھولا تلاش نے میری
اک جہاں ہے جہان سے باہر
یہ ملا رہبری کا آج صلہ
میر ہے کاروان سے باہر
جس نے بنیاد کو تھا خون دیا
آج خود ہے مکان سے باہر
اک اسی تیر نے ہمیں مارا
جو نہ آیا کمان سے باہر
آپ کی آنکھ جو پڑھی ہم نے
آ گئے داستان سے باہر
سب عنایات زندگی تیری
جا کے سمجھیں گے جان سے باہر
وہ پرانا سا مال ہیں اب ہم
جو بکے بس دکان سے باہر.
••••♪♥••••
©Lal Writes