تسکین نا ہو جس سے وہ راز بدل ڈالو
جو راز نا رکھ پائے ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سنی ہو گی بڑی عام کہاوت ہے
انجام کا ہو خطرہ آغاز بدل ڈالو
پر سوز دلوں کو جو ، مسکان نا دے پائے
سر ہی نا ملے جس سے وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ہے ظاہر اگر کرنا ہو
تم کھیل وہی کھیلو انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت کچھ دور سویرا ہے
گر چاہتے ہو منزل تو پرواز بدل ڈالو