روح حاضر ہے مرے یار کوئی مستی ہو
حلقہء رقص ہے تیار کوئی مستی ہو
مجھ کو مٹی کے پیالے میں پلا تازہ شراب
جسم ہونے لگا بے کار کوئی مستی ہو
چار طرفوں نے ترے ہجر کے گھنگھرو باندھے
اور ہم لوگ بھی ہیں چار کوئی مستی ہو
کوئی واعظ ہو وظیفہ نہ کوئی صوم و صلٰوت
جان چھوٹے مری اک بار کوئی مستی ہو
مجھے خبر تھی کہ اس لمحے کیا ضروری تھا
نگاہ بھر کے تجھے دیکھنا ضروری تھا
انہی دنوں مجھے جب مل رہے تھے دوسرے لوگ
انہی دنوں ترا ملنا بڑا ضروری تھا
وہ کہہ رہے تھے ضروری تھا ساتھ ہوتا کوئی
تو میں نے آہ بھری اور کہا ضروری تھا
بھٹکنے والے نے مرتے ہوے کہا ۔۔۔ یارو
مجھے یقین ہے ۔۔۔ شاید خدا ضروری تھا
سب باتیں ہیں اس راز کی جو سب پر کھول رہا
میں بول ہوں اس آواز کا جو سب میں بول رہا
میں کمی اپنے یار کا میں کاہے کا درویش
نا کپڑے کالے رنگ کے نا لمبے میرے کیش
نا عالم فاضل شخص ہوں جو مفتی کہلاؤں
نا سمجھا دنیا داریاں جو تجھ کو سمجھاؤں
نا صاحب ، صاحب زاد ہوں نا کوئی گدی نشین
نا بیچ سکا میں یار کو نا بیچا مذہب دین
Continue with Social Accounts
Facebook Googleor already have account Login Here