کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے
بجھتے دِیے نے وقت ِسحر دیکھنا بھی ہے
اب کے اسے قریب سے چھونا بھی ہے ضرور
پتھر ہے آئینہ کہ گہر دیکھنا بھی ہے
یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر
اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے
میں اس شہر کا آخری فرد نہیں
کیوں سنبھال رکھا ہے مجھے
میں انمول درد نہیں
نہ میں وہ خوشی ہوں
جو مرادؤں سے ملے
نا وہ کامیابی ہوں
جو ارادؤں سے ملے
نہ ہوا ہوں کسی بند کمرے کی
Continue with Social Accounts
Facebook Googleor already have account Login Here