تازہ غزل
وصل کے بعد نیا غم بھی نکل سکتا ہے
عشق معیار میں کچھ کم بھی نکل سکتا ہے
خوشبوئے گُل بھی خزاؤں میں بڑی بات نہیں
اُس کے پہلو سے یہ موسم بھی نکل سکتا ہے
یہ ضروری تو نہیں راس ہو جنت کی ہوا
کوئی آنکھوں کو لیے نم بھی نکل سکتا ہے
روح کے ہاتھ میں تلوار بھی ہو سکتی ہے
موت کی جیب سے مرہم بھی نکل سکتا ہے
عشق نے شاہ بھی نچوائے ہیں بازار کے بیچ
حُسن کی یاد میں ماتم بھی نکل سکتا ہے
جس طرح بات وہ کرتا ہے بچھڑنے کی شفیق
اِس طرح تو یہ مرا دم بھی نکل سکتا ہے
شفیق عطاری
تازہ غزل
وصل کے بعد نیا غم بھی نکل سکتا ہے
عشق معیار میں کچھ کم بھی نکل سکتا ہے
خوشبوئے گُل بھی خزاؤں میں بڑی بات نہیں
اُس کے پہلو سے یہ موسم بھی نکل سکتا ہے
یہ ضروری تو نہیں راس ہو جنت کی ہوا
کوئی آنکھوں کو لیے نم بھی نکل سکتا ہے
روح کے ہاتھ میں تلوار بھی ہو سکتی ہے
موت کی جیب سے مرہم بھی نکل سکتا ہے
عشق نے شاہ بھی نچوائے ہیں بازار کے بیچ
حُسن کی یاد میں ماتم بھی نکل سکتا ہے
جس طرح بات وہ کرتا ہے بچھڑنے کی شفیق
اِس طرح تو یہ مرا دم بھی نکل سکتا ہے
شفیق عطاری
2 Love
میں جو مل جاتا ہوں آسانی سے۔۔۔
لوگ سمجھتے ہیں بیکار ہوں میں۔۔۔
Continue with Social Accounts
Facebook Googleor already have account Login Here