تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں
हमारे चले जाने के बाद,
ये समुंदर भी पूछेगा तुमसे,
कहा चला गया वो शख्स
जो तन्हाई मे आ कर,
बस तुम्हारा ही नाम लिखा करता था…
تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں تنہاٸ کے سب دن ہیں تنہاٸ کی سب راتیں، ذہن پہ نقش ہیں جاناں وہ تیری چاہتیں،تیری یادیں
ممکن نہیں گذارہ تم بن اے میری جاناں، میں کس طرح بھولا دو
تجھ سےجو کی تھیں وہ ساری پیار کی باتیں
تیری قربت میں تھا جو گذرہ وہ دور سہانہ، میں کس طرح بھولا دوں
تجھ سے جو کی تھیں وہ سب اقرار کی باتیں
محمد زبیر شیخ
Continue with Social Accounts
Facebook Googleor already have account Login Here